The winning entry has been announced in this pair.There were 12 entries submitted in this pair during the submission phase, 3 of which were selected by peers to advance to the finals round. The winning entry was determined based on finals round voting by peers.Competition in this pair is now closed. |
کم از کم جدید دنیا میں، زمانے کا مرکزی خیال یہ رہا ہے کہ لوگ سکون کی تمنا کرتے ہیں اور ملتا نہیں ہے۔ ٹریفک کی گھن گرج، فون کی لگاتار گھنٹی، ٹرینوں اور بسوں میں ڈیجیٹل اعلانات، حتی کہ خالی دفاتر میں ٹی وی سیٹس کا شور، ایک نہ ختم ہونے والی یلغار اور اختلال توجہ ہیں۔ نوع انسانی شور شرابے سے اپنے آپ کو نڈھال کر رہی ہے اور اس کے برعکس سکون کے لیے تڑپتی ہے – خواہ یہ جنگلوں میں ہو، وسیع سمندروں میں، یا سناٹے اور ارتکاز کے لیے وقف شدہ خلوت میں ہو۔ یہ خیال تاریخ کے پروفیسر، ایلین کوربِن نے سوربون میں اپنی پناہ گاہ سے، اور نارویجین مہم جو ایرلنگ کَیگا نے اپنی انٹارکٹکا کے بیابانوں کی یادوں سے رقم کیا ہے جہاں دونوں شور سے خلاصی کے لیے مفرور رہنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ اور اس کے باوجود، جیسا کہ مسٹر کوربِن نے "خاموشی کی تاریخ" میں اس جانب توجہ دلائی ہے، غالباً ماضی کے شور شرابے کی نسبت اب شور زیادہ نہیں ہے۔ ہوائی ٹائروں سے قبل، شہر کی گلیاں، پتھر پر دھاتی پہیوں اور گھوڑے کی نعل کی کڑک دار آواز سے بھرپور تھیں۔ موبائل فونز پر خود ساختہ تنہائی سے قبل، بسیں اور ٹرینیں باتوں کے شور سے گونجتی تھیں۔ اخبار فروش اپنا سامان چُپ چاپ نہیں دھرے بیٹھتے تھے، بلکہ اونچی آواز میں اس کی تشہیر کرتے تھے، یہ ہی انداز چھابڑی پر چیری، بنفشے اور تازہ مچھلی فروخت کرنے والوں کا تھا۔ تھیٹر اور نگار خانے شور شرابے اور تحسین آمیز کلمات کا جھمگٹا ہوتے تھے۔ حتی کہ دیہات میں، کسان مشقت کے وقت بھی گایا کرتے تھے۔ اب وہ نہیں گاتے۔ شور کی سطح، اب تک ہونے والی زیادہ بڑی تبدیلی نہیں ہے، جس کے متعلق پچھلی صدیوں میں بھی شکایت رہی، بلکہ اختلال توجہ کی سطح میں تبدیلی آ گئی، جو اس جگہ کو پُر کرتی ہے جہاں خاموشی وارد ہو سکتی ہے۔ یہاں ایک اور تضاد ابھرتا ہے، کیونکہ جب یہ خاموشی – صنوبر کے جنگل کی گہرائیوں، لق و دق صحرا، اچانک خالی ہونے والے کمرے میں - وارد ہوتی ہے، تو خوش آئند ہونے کے بجائے اکثر حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہے۔ خوف اندر سرائیت کر جاتا ہے؛ کان بے اختیار کسی بھی آہٹ پر تن جاتے ہیں، خواہ وہ آگ کی سسکیاں ہوں یا پرندوں کا چہچہانا یا پتوں کی سرسراہٹ ہو، کہ وہ اُنہیں اس انجانے خالی پن سے محفوظ رکھے گی۔ لوگ خاموشی تو چاہتے ہیں، لیکن اتنی زیادہ نہیں۔ | Entry #24250 — Discuss 0 — Variant: Not specified Winner
|
دور حاضر کا ایک اہم موضوع، کم از کم ترقی یافتہ دنیا میں تو یہی ہے کہ لوگ خاموشی کے لیے ترستے ہیں لیکن اس کو مفقود پاتے ہیں۔ ٹریفک کی چیخم دھاڑ، فونز کی لگاتار ٹوں ٹوں، بسوں اور ریل گاڑیوں میں ہونے والے ڈیجیٹل اعلانات، اور اس کے ساتھ دفتر خالی ہونے کے باوجود ان میں بلند آواز سے چلنے والی ٹی وی سیٹس کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جہ کہ ہماری توجہ کو منتشر کرتا رہتا ہے۔ بنی نوع انسان اس شور کی وجہ سے تھکتی جا رہی ہے اور اس کے برعکس کی مشتاق ہے، بھلے وہ جنگلوں میں ملے، سمندر کے وسیع کنارے پر یا کسی ایسے گوشہ تنہائی میں جو سکوت اور ارتکاز ہی کے لیے مختص کیا گیا ہو۔ تاریخ کے پروفیسر ایلن کوربن اپنی سوربون کی پناہ گاہ سے اور نارویجیئن مہم جو ارلنگ کاگا (اس کے بہت سارے مختلف تلفظ ہیں) انٹارکٹکا کے غیر آباد علاقوں کی یاددواشت سے لکھتے ہیں جہاں دونوں نے (اپنے اپنے طور پر) فرار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس کے باوجود مسٹر کوربن اپنی تحریر "اے ہسٹری آف سائیلنس" (خاموشی کی تاریخ) میں اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ شور شاید اس سے زیادہ نہیں جتنا پہلے تھا۔ ہوا بھرے ٹائروں سے پہلے شہروں کی گلیاں اور سڑکیں لوہا چڑھے پہیوں کی کان پھاڑ دینے والی کھڑکھڑاہٹ اور پتھروں پر پڑنے والی گھوڑے کی نعلوں کی آواز سے گونج رہی ہوتی تھیں۔ موبائل فونز کی مرہون منت خود ساختہ تنہائی سے قبل بسیں اور ٹرینیں گفتگو کی آواز سے پر ہوتی تھیں۔ اخبار فروش اپنے سودے کا ڈھیر لگا کر خاموش بیٹھ نہیں جایا کرتے تھے بلکہ گلا پھاڑ کر اس کی تشہیر کیا کرتے تھے، جیسا کہ شاہ دانہ (چیری)، بنفشہ (کے پھول) اور تازہ میکرل بیچنے والے کرتے تھے۔ تھیٹر اور اوپیرا بھی واہ واہ اور اوئے اوئے کے بے ہنگم شور سے پر ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ دیہاتوں میں بیگار میں جتے ہوئے کسان بھی گا رہے ہوتے تھے۔ اب یہ لوگ گاتے نہیں۔ تبدیلی شور کی سطح میں نہیں ہوئی جس کے متعلق پچھلی صدیوں میں بھی شکایت کی جاتی رہی ہے، بلکہ پراگندگی کی سطح میں ہوئی ہے جس نے اسے ماحول کا احاطہ کر لیا ہے جس پر خاموشی کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں دراصل ہمیں ایک اور تضاد کا سامنا ہے کیونکہ جب اس کا غلبہ ہو جاتا ہے جیسا کہ صنوبر کے جنگلوں یا لق و دق صحرا یا یکایک خالی ہو جانے والے کسی کمرے میں تو اکثر یہ خوش آئند کی بجائے باعث خوف ثابت ہوتی ہے۔ خوف ہماری رگوں میں سرایت کرنے لگا ہے۔ کان جبلی طور پر کسی بھی چیز پر مرکوز ہو جاتے ہیں چاہے وہ آگ کی پھنکار ہو، پرندوں کا چہچہانا یا پتوں کی سرسراہٹ؛ جوکچھ بھی ہمیں اس نامعلوم خالی پن سے پناہ فراہم کرے۔ لوگ خاموشی کے خواہش مند ضرور ہیں لیکن اتنی زیادہ خاموشی کے بھی نہیں۔ | Entry #23429 — Discuss 0 — Variant: Not specified Finalist
|
دورِ حاضر کا موضوع کم از کم ترقی یافتہ دنیا میں یہ ہے کہ لوگ خاموشی کے متمنی ہیں اور وہ اسے پانے سے قاصر ہیں ۔ ٹریفک کا بے ہنگم شور، فونز کی نہ تھمنے والی تیز آوازیں، بسوں اور ٹرینوں میں ڈیجیٹل اعلانات، حتی کہ خالی دفاتر میں با آوازِ بلند ٹی وی سیٹ لامتناہی اذیت اور خلل ہیں۔ نوعِ انسانی شور کے باعث خود شکستہ پزیر ہے اور اس سے برعکس کی خواہاں ہے خواہ ویرانوں میں ،وسیع سمندروں پر یا سکوت اور ارتکاز کے لئے وقف کسی ٹھکانے پر۔ تاریخ کے پروفیسر آلین کوربن سوربون میں واقع اپنی آرامگاہ سے اور ناروے نژاد نامعلوم علاقوں کے سیاح ارلنگ کاگگی، انٹارکٹکا کے دور افتادہ مقامات کی اپنی یادداشتوں سے، جہاں یہ دونوں وقتی نجات لینے کی کوشش کر چکے ہیں، تحریر کرتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ مسٹر کوربن نے اے ہسٹری آف سائلنس میں نشاندہی کی ہے شائد اب اتنا شور نہیں ہے جتنا کبھی ہوا کرتا تھا۔ ربڑ کے ہوا بھرے ٹائروں سے قبل شہروں کی گلیاں دھاتی پٹی والے پہیوں اور اینٹوں پر نعلین کی چوٹوں سے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی آوازوں سے لبریز ہوا کرتی تھیں۔ موبائل فونز پر اپنی مرضی سے الگ تھلگ ہو جانے سے قبل بسوں اور ٹرینوں میں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اخبار فروش اپنے مال کو ایک بے آواز ڈھیری میں نہیں چھوڑ رکھتے تھے بلکہ چیری ، بنفشہ اور تازہ میکرل مچھلی فروشوں کی مانند اُن کی بلند تر آواز سے تشہیر کرتے تھے۔ تھیٹر اور اوپرا واہ واہ اور آوازیں کسنے کا مرکب تھے۔ حتی کہ دیہاتوں میں کسان مشقت کرتے ہوئے گنگناتے تھے۔ وہ اب گنگناتے نہیں ہیں۔ جو تبدیل ہوا ہے وہ شور کا اونچا پیما نہیں ہے کہ جس کا شکوہ سابقہ صدیاں بھی کرتی رہیں بلکہ خلل کا پیما ہے جس نے فضا کو محیط کر رکھا ہے کہ خاموشی دھاوا بول سکے۔ ایک اور متضاد خیال یہ ہے کہ کیونکہ جب صنوبر کے جنگل کے بیچوں بیچ ، کھلے صحرا میں ،آناً فاناً خالی ہو جانے والے کمرے میں یہ دھاوا بولتی ہے تو خوش آئند ہونے کی بجائے یہ اکثر ناقابلِ برداشت ثابت ہوتی ہے۔ ً خوف سراعت کر جاتا ہے، کان غیر شعوری طور پر کسی بھی شے کی سمت جم جاتا ہے چاہے وہ جلتی لکڑیوں کی سسکیاں ہوں یا پرندے کی آواز یا پتوں کی سرسراہٹ ،کہ جو اسے اِس انجانے سُونے پن سے محفوظ رکھے گی۔ لوگ خاموشی چاہتے ہیں لیکن اسقدر ذیادہ نہیں۔ | Entry #23489 — Discuss 0 — Variant: Not specified Finalist
|
اس دور کا موضوع، کم از کم ترقی پذیر ممالک میں، یہ ہے کہ لوگ خاموشی کی آرزو کرتے ہیں لیکن پا نہیں سکتے۔ ٹریفک کا شور ، ٹیلیفون کی غیرمحتاط آواز، بسوں اور ریل گاڑیوں میں ڈیجیٹل اعلانات، ٹی وی سیٹیں جو خالی دفاتر میں بھی زوردار آواز میں گونجتے ہیں، نہ ختم ہونے والی گرج اور بھٹکاوا ہیں۔ انسانی نسل اپنی آپ کو شور سے تھکا تا رہا ہے اور اس کے برعکس کی تمنا رکھتی ہے ۔ خواہ کسی جنگل میں ہو، کھلے سمندر میں یا کسی ایسی عافیت گاہ میں ہو جو خاموشی اور انہماک کے لیے مختص کی گئ ہو۔ تاریخ کا ایک پروفیسر، الین کوربین، ساربون میں اپنی مہاجرت کے وقت، اور ناروے کا ایک محقق، ارلینگ کاگ، انٹارکٹیکا کے ایک بیابان میں اپنی یاداشت سے لکھتے ہیں جہاں دونوں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ اور پھر بھی، جیسے مسٹر کوربین "اے ہیسٹری اوف سایلینس" میں بتاتا ہے، پہلے جیسا شور اب نہیں ہے۔ ہوا سے بھرے ٹایروں سے پہلے شہر کی سڑکیں آہنی گھیرو والی پہیوں اور پتھروں پر گھوڑوں کی ٹھنٹھناتی گونج سے بھری تھیں۔ موبائل فون پر خودساختہ تنہائی سے پہلے بسیں اور ریل گاڑیاں گفتگو سے گونجتے تھیں۔ اخبار فروش اپنی اشیاۓ فروخت ایک خاموش ڈھیر میں نہیں چھوڑتے لیکن اونچی آواز میں ان کی تشہیر کرتے تھے جیسے چیری، بنفشے اور تازہ مچھلیاں بیچنے والے کرتے تھے۔ تھیٹر اور اوفرا خوشی کے نعروں اور شور و غل کی بدنظمی سے گونجتے تھے۔ دیہاتوں میں بھی کسان کام کے وقت گاتے تھے۔ اب وہ نہیں گاتے۔ جو کچھ تبدیل ہوا ہے وہ شور کی مقدار نہیں، جس کی پچھلے صدیوں کے لوگ بھی شکایت کرتے تھے، لیکن تفریح کا مقدار ہے جو اس جگہ پر تعینات ہے جس پر شاید خاموشی حملہ کرے گا۔ ایک اور متناقض چیز ابھرتی نظر آرہی ہیں، کیونکہ اگر یہ حملہ کرتا ہے – صنوبر کے جنگل کی گہرائی میں، کھلے صحرا میں، اچانک خالی ہونے والے کمرے میں – یہ اکثر خوش آئند سے زیادہ حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہے۔ خوف اندر سرایت کرجاتی ہے، کان غیر شعوری طور پر ہر چیز کے لیے بند ہوجاتا ہے، خواہ وہ آگ کی سسکار ہو یا پرندے کی آواز یا پتوں کی سرسراہٹ ہو، جو اسے اس نامعلوم خلا سےبچائے گا۔ لوگ خاموشی چاہتے ہیں لیکن اتنی بھی نہیں۔ | Entry #22976 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
زندگی کی ایک وضع یہ بھی ہے، جو کم از کم ترقی یافتہ ممالک میں تو پائی ہی جاتی ہے، کہ لوگ خاموشی کے متلاشی ہیں لیکن اسے پانہیں سکتے۔ گاڑیوں کی چنگھاڑ، ٹیلی فونز کی متواتر گھنٹیاں، بسوں اور ریل گاڑیوں میں مشینی اعلانات، خالی دفاتر میں شور مچاتے ٹیلی ویژن سیٹ اور ایک نہ ختم ہونے والی گولہ باری جیسا شور اور انتشار۔ انسانی نسل اپنے آٌپ کو شور کی وجہ سے تھکا رہی ہے اور اس کے برعکس خواہش رکھتی ہے – چاہے جنگل میں، وسیع سمندر پر یا سکوت اور ارتکاز کے لیے وقف کوئی خلوت گاہ ہوٓ– تاریخ کے ایک پروفیسرالائن کوربن سوربونے میں واقع اپنی پناہ گاہ اور ناروے کے ایک سیاح ایرلنگ کیگ انٹارکٹیکا کے ویرانوں کے بارے میں اپنی یاداشتیں لکھتے ہیں جس میں ان دونوں نے اس سے فرار کی کوشش کی ہے۔ پھر بھی کاربن نے " خاموشی کی تاریخ" میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ شاید اب اتنا شور نہیں ہے جتنا پہلے ہوتا تھا۔ ہوا بھرے پہیوں سے قبل، شہر کی گلیاں دھاتی چھلوں والے پہیوں اور پتھروں پر گھوڑے کی نعل کی بہرہ کردینے والی کھڑ کھڑاہٹ سے بھرپور تھیں۔ موبائل فونز پر خود کار علیحدگی سے پہلے، بسیں اور ریل گاڑیاں بات چیت کے دوران گھنٹیاں بجاتی تھیں۔ اخبار فروش اپنے مال کو ایک خاموش ڈھیر کی طرح نہیں چھوڑتے تھے، بلکہ بھر پور آواز سے اس کی تشہیر کرتے تھے، چیری، جامن اور تازہ اسقمری مچھلی بیچنے والے بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ دیہاتوں میں بھی دہقان اپنے مشقت کے کام کے دوران گانے گاتے تھے۔ اب وہ نہیں گاتے۔ جوچیز تبدیل ہوئی ہے وہ شور کی سطح نہیں ہے، جس کی شکایت گذشتہ صدیوں میں بھی کی گئی، بلکہ وہ انتشار کی سطح ہے، جس نے وہ جگہ گھیر رکھی ہے جہاں خاموشی کو جگہ لینی چاہیے۔ اب ایک اور تنازعہ جنم لے رہا ہے، کیونکہ جب خاموشی یہ جگہ لیتی ہے– جیسے صنوبر کے جنگلات کی گہرائی میں، لق و دق صحرا میں، اچانک خالی ہو جانے والے کمرے میں– تو خوش آمدید کہنے کی بجائی اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ خوف آہستہ آہستہ اندر داخل ہوتا ہے: کان بے اختیار کسی چیز کی طرف لگ جاتے ہیں، چاہے وہ آگ کی سنسناہٹ ہو ، پرندے کی آواز ہو یا پتوں کی سرگوشی ہو جو اسے اس بے نام خالی پن سے بچا لے: لوگ خاموشی کے طلبگار ہیں، لیکن اتنے بھی نہیں۔ | Entry #23927 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
کم از کم آج کل کی ترقی یافتہ دنیا میی لوگ سکون چاہتے ہیں لیکن انہیں ملتا نہیں ہے۔ ٹریفک کی گھن گرج، فونز کی نہ تھمنے والی گھنٹیاں، بسوں اور ٹرینوں میں ہونے والے اعلانات، خالی دفاترمیں بجنے والے ٹی وی، یہ سب نہ رکنے والی اوردھیان بٹانے والی چیزیں ہیں. نوع انسانی اس شور سے اپنے آپ کو ختم کر رہی ہے لیکن چاہتی اس کے برعکس ہے- چاہے وہ جنگلوں میں جاکر، ایک وسیع و عریض سمندر کے ساحل پر یا پھر کسی خاموش جگہ پرجہاں وہ دھیان لگا سکے. الین کوربن، ایک ہسٹری کے پروفیسر، فور بون میں موجود اپنی پناہ گاہ سے اور ایرلنگ کوگ، آرلنگٹن کے ایک نارویجین کھوج لگانے والے، انٹارکٹیکا کی وسعتوں سے اس کے بارے لکھتے ہیں جہاں سے دونوں نے اس شور سے فرار ہونے کی کوشش کی. مسٹر کوربن اپنی کتاب "ہسٹری آف سائلنس" میں نشاندہی کرتے ہیں کی ان ہوا سے بھرے ٹائروں سے پہلے شہر کی گلیاں دھات کے بنے پہیوں اور پتھر پر پڑھنے والے گھوڑوں کے سموں کے شور سے، موبائل فونز کے باعث ہونے والی تنہائیوں میں سے پہلے، بسیں اور ٹرینیں گفتگو سے بھرپور هوتی تهین. اخبارات بیچنے والے خاموشی سے نہیں بلکہ سب سے اونچی آواز میں اخبارات کی مشہوری کرتے تھے اور بالکل اسی طرح چیریز، وائلٹ اور تازہ میکیریل بیچنے والے کرتےتهے. تھیٹر اور اوپراز میں شوروغل کے باعث ایک افراتفری رہتی تھی حتیٰ کہ گاؤں میں، دیہاتی لوگ نشے میں چور ہو کر گایا کرتے تھے. جو بدل گیا ہے وہ زیادہ شور کی سطح نہیں ہے، جس کے بارے میں پچھلی صدیاں شکایت کرتی تھی لیکن دھیان بٹانے کی سطح تبدیل ہوچکی ہے جو ہر وہ خالی جگہ بھر چکی ہے جہاں خاموشی حملہ کرتی تھی. ایک اور بھی خدشہ هے، کیونکہ جب خاموشی پائن کے جنگلوں کی گہرائیوں میں، ننگے ریگستان میں، اچانک خالی کمروں میں ملا نہیں کرتی تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے.اس سے خوف آنے لگتا هے؛ جب کان عادتاً کھڑے هو جاتے ہیں چاہے وہ گولی کی آواز هو، پرندے کی چہچہاہٹ یا پتوں کی سرسراہٹ یہ سب گمنام خاموشی سے بچا سکتے ہیں. لوگ خاموشی چاہتے ہیں لیکن اس حد تک بھی نہیں چاہتے. | Entry #22735 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
عصر حاضر کا موضوع، کم از کم ترقی یافتہ دنیا میں، یہ ہے کہ لوگ خاموشی کی آرزو کرتے ہیں اور پا نہیں سکتے ہیں۔ ٹریفک کی دھاڑ، فونوں کی نا بند ہونے والی آوازیں (بیپ)، بسوں اور ٹرینوں میں مشینی اعلانات، حتی کہ خالی دفاتر میں TV سیٹوں کی چیخ و پکار، ایک نہ ختم ہونے والی گولہ باری اور تباہی ہے۔ نسل انسانی اپنے آپ کو شور سے تھکا رہی ہے اور ۔۔ آیا کہ جنگلوں میں، وسیع سمندر پر یا سکوت اور توجہ کے لئے مخصوص کسی پناہ گاہ میں اس کے برعکس کی تمنا کرتی ہے۔ آلین کوربن (Alain Corbin)، تاریخ کا پروفیسر، سوربون (Sorbonne) میں اپنی پناہ گاہ سے، اور ارلنگ کیج (Erling Kagge)، ناروے کا سیاح، انٹارکٹیکا کے ویرانہ کی اپنی یادداشت سے، جہاں پر دونوں نے بچنے کی کوشش کی ہے، تحریر کرتے ہیں۔ اور پھر بھی، جیسا کہ محترم کوربن(Mr. Corbin) “خاموشی کی سرگزشت” میں اشارہ کرتے ہیں، اب شاید اتنا زیادہ شور نہیں جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ ہوائی ٹائروں سے قبل، شہر کی گلیاں پتھروں پر دھاتی رم والے پہیوں اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی بہرہ کر دینے والی جھنکار سے بھری رہتی تھیں۔ موبائل فونوں پر قصداً تنہائی سے قبل، بسیں اور ٹرینیں گفتگو سے گونجتی رہتی تھیں۔ اخبار فروش اپنا مال تجارت گونگے انداز میں نہیں چھوڑتے تھے، بلکہ اونچی آواز میں ان کی تشہیر کرتے تھے، جیسا کہ چیریوں، بنفشی پھولوں اور تازہ میکریل کے سوداگر کرتے تھے۔ تھیٹر اور آپیرا واہ واہ اورداد سے پرہنگم رہتے تھے۔ حتی کہ دیہی علاقہ میں، کسان جب مشقت کرتے ہوئے گانا گاتے تھے۔ وہ اب نہیں گاتے ہیں۔ شور کا درجہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے، جس کے متعلق گزشتہ صدیوں میں بھی شکایت کی گئی، لیکن تباہی کا درجہ بدل گیا ہے، جس نے اس جگہ بھی قبضہ کر لیا جہاں خاموشی راج کر سکتی تھی۔ ایک اورقول محال بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ جب یہ (خاموشی) راج کرتی ہے۔۔۔۔۔ صنوبر کے جنگلات کی گہرائیوں میں، عریاں صحرا میں، اچانک خالی ہونے والے کمرہ میں۔۔۔۔ یہ اکثر خیر مقدم کئےجانے کی بجائے حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہے۔ خوف رینگ جاتا ہے؛ کان فطری طور پر کسی چیز پرچپک جاتے ہیں، چاہے آگ کی سسکاری یا پرندے کی پکار یا پتوں کی سرسراہٹ ہو، جو کہ اسے اس نامعلوم خالی پن سے محفوظ کرے گی۔ لوگ خاموشی چاہتے ہیں، لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں۔ | Entry #23543 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
لوگ خاموشی چاھتے ھیں مگرپاتے کہیں نہیں ۔ یہ اس دور کم از کم ترقی یافتہ دنیا کا موصوع ھے۔ ٹریفک کا شور، لامتیاھی فون کی گھنٹیاں، بسوں اور ریل گاڑیوں میں خودکار ڈجیٹل اعلانات، ھر جگہ یھاں تک کہ خالی دفاتر میں ٹی وی کا شور ایک نہ ختم ھونے والی ازیت اور خلفشار کا باعث ھیں ۔ نسل انسانی شور سے خود کو بے حال کیے جا رھی ھے حالانکہ وہ اس کے برعکس کی خواھاں ھے۔ چاھے بیابان ھو، کھلا سمندر ھو یا کوئ خاموش اور مرکوزِتوجہ کے لۓ وقف شدہ جگہ ۔ تاریخ کے پروفیسر، الین کوربن، سوربون کی پناہ کے بارے میں اور ناروے کے سیاح آرلنگ کاگے انٹارکٹیکا کے بنجر کی یاداشت میں جھاں وہ دونوں بچنے کو بھاگے تھے کچھ ایسے ھی لکھتے ھیں ۔ جناب کوربن "A History of Silence" میں نشاندھی کرتے ھیں کہ پھر بھی وھاں شائد اتنا شور نھیں ھوتا جتنا ھوا کرتا تھا۔ ھوا بھرے پہیوں سے پہلے، شہر کی سڑکیں فولادی پہیوں اور گھوڑوں کی پتھر زمین پر ٹاپوں کے کان پھاڑ ددینے والے شور سے بھری رہتی تھیں۔ موبائل فون کی رضاکارانہ اپنائی تنہائی سے پہلے بسیں اور ریل گاڑییاں خوشگپیوں کے شور میں ڈوبی ھوتی تھیں. اخبار فروش اپنا سامان ایک خاموش ڈھیر کی صورت میں بکنے کو نہیں چھوڑتے تھے بلکے اپنی پوری آواز لگا کے متوجہ کرتے تھے، اسی طرح گل فروش، پھل فروش اور مچھلی فروش کرتے تھے۔ تھیٹر اور اوپرا واہ واہ اورفقرہ کسی کی گہما گہمی سے بھرپور ھوتی تھیں۔ یہاں تک کہ دوردراز کے علاقوں کے کسان بھی مشقت کے ساتھ ساتھ گاتے جاتے تھے۔ اب وہ بھی نہیں گاتے۔ جو چیز بدلی ھے وہ شور کی سطح نہیں ھے، جیسا کہ پچھلی صدیوں کی بھی صورت حال رہی، یہ بلکہ اضطراب کی سطح میں ھے، جس نے وہ جگہ جہاں خاموشی داخل ھوتی لے لی ھے۔ اس میں ایک اور تضاد منڈلا رہا ھے، کیونکہ جب وہ واقعی داخل ھوتا ھے -چاھے گھنے صنوبر کے جنگل ھوں، بے سایہ صحرا ھو، کمرے کا اچانک خالی ھونا ھو - خوش آمدید ھونے کے بجائے یہ اکثر بیکل کر دینے والا ثابت ھوا ھے۔ خوف سرایت کرلیتا ھے؛ کسی قسم کی آواز کیوں نہ ھو، آگ کی ھو یا پرندے کی آواز ھو یا پتوں کی سرسراہٹ ھوکان قدرتی طور پر اسکے تعاقب میں لگ جاتا ھے ،، تاکہ وہ اس کو اس نا معلوم خالی پن سے بچا سکے۔ لوگوں کو خاموشی چاھئے، مگر اتنی بھی نہیں ۔ | Entry #22985 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
کم از کم دور جدید میں، وقت کی دُھن میں لوگ خاموشی کو ترس گیے لیکن انہیں خاموشی نہ ملی۔ ٹریفک کی گرج، فون کی مسلسل گھنٹیاں، بسوں اور ریل گاڑیوں کے خودکار اعلانات اورخالی دفتروں کے ٹیلی وژن کی سنسناہٹ، لاتعداد گمراہی اور توجہ ہٹانے کا سبب ہیں۔ بنی نوع انسان شور سے تنگ آچکا ہے اور اب اسکے مخالف چاہتا ہے۔۔ اور ایک سکون اور سکوت سے مرکوز جگہ چاہتا ہے، چاہے وہ جنگلوں میں ہو یا وسیع سمندر میں ہو۔ایلین کوربن، ایک تاریخ کا پروفیسر اور ارلنگ کھگیا، ایک ناروے کا سیاح، جنوبی قطب میں سوربون پر بھاگ کر پناہ لینے کے متعلق لکھتے ہیں اور پھر محترم کوربن "خاموشی کی تاریخ" میں نشاندہی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب شاید اتنا شور نہیں جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ جدت آمیز ٹائروں سے پہلے شہر کی پتھریلی گلییاں لوہے کے چھلے والے پہیوں اور گھوڑے کے نعلوں کے شور سے بہرہ کردیتی تھیں۔ موبائل فون کی خودساختہ تنہائی سے پہلے بسیں اور ریل گاڑیاں گفتگو کے شور سے گونجتی تھیں۔ اخبار فروش اپنے سودے کی گٹھڑی بجائے خاموشی کے اپنی بلند ترین آواز میں بیچتے، جیسے کہ چیری، عناب اور مچھلیوں کے بیوپاری۔ تھیٹر اورمزاح خانے مسخروں اور ہیجڑوں کے مزاح کی افرا تفری میں ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ گاوں کے پرندے بھی کوکتے تھے۔ اب وہ نہیں گاتے۔ جو تبدیل ہوا وہ شور کی مقدار نہیں جو گزشتہ صدیاں بھی گلہ کرتی ہیں، بلکہ نزه سرائی کی مقدار ہے، جو خاموشی کی جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ یہیں پر ایک اور سوچ بھی نظر آتی ہے کہ جب خاموشی اس جگہ کو پُر کرتی ہے تو جیسے چناروں کے جنگل کے بیچ، کھلے صحرا میں، اچانک خالی ہوئے کمرے میں، یہ خوش طبع ثابت ہونے کی بجائے حواس باختہ محسوس ہوتی ہے۔ سکوت طاری ہوتا ہے، کان خود بخود توجہ دینا شروع کرتا ہے، جو کچھ بھی ہو، چاہے آگ کی سرسراہٹ، پتوں کی سنسناہٹ، وہ اس انجان خالی جگہ کو پُر کر لیتی ہے۔ انسان خاموشی تو چاہتا ہے، لیکن اس قدر نہیں | Entry #23116 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
ایک دور کا انداز، کم از کم ترقّی یافتہ دُنیا میں، یہ یے کہ لوگ خاموشی کی خواہش کرتے ہیں اور اُسے پا نہیں سکتے۔ ٹریفک کی چنگھاڑ، فُونز کی نہ ختم ہونے والی تیز آوازیں، بسوں اور ٹرینوں میں ہونے والے ڈیجیٹل اعلانات، حتّیٰ کہ خالی دفاتر میں بھی بجنے والے ٹی وی، ایک نہ ختم ہونے والی تکرار اور انتشارِ توجّہ ہیں۔ انسانی نسل خُود کو شوروغُل سے تھکا رہی ہے اور اُس کے مُتضاد کی تمنّا کرتی ہے--چاہے وہ جنگل بیابان میں ہو، وسیع سمندر میں موجود ہو یا خاموشی اور ارتکار کے لیے مختص کِسی پناہ گاہ میں ہو۔ الائن کوربن، تاریخ کے ایک پروفیسر، سوربون میں اپنی پناہ گاہ سے تحریر کرتے ہیں، اور ارلنگ کاگے، ایک نارویجی محقّق، انٹارکٹیکا کی باقیات کی اپنی یادوں سے اقتباس کرتے ہیں، جہاں پر دونوں نے فرار کی کوشش کی ہے۔ اور پھر بھی، کوربن صاحب نے "خاموشی کی ایک تاریخ" میں اِس بات کی نشاندہی کی ہے ہ غالباً اِس سے زیادہ شور نہین ہے جتنا پہلے ہوتا تھا۔ ہوائی ٹائروں سے پہلے شہر کی سڑکیں دھاتی پہیوں کی کان پھاڑ دینے والی آوازاں اور پتّھروں پر گھوڑوں کے کُھروں کی ٹاپوں سے معمور تھیں۔ موبائل فُونز کی رضاکارانہ تنہائی سے قبل بسیں اور ٹرینیں گُفتگو سے گُونجا کرتی تھیں۔ اخبارفروش اپنے اخبارات کو ایک خاموش ڈھیر میں نہیں چھوڑا کرتے تھے بلکہ تیز آواز میں اُن کا پرچار کرتے تھے، اور ایسا ہی بیرفروش، گُل فروش اور مچھلی فروخت کرنے والے کرتے تھے۔ تھیٹر اور اوپیرا ستائشی کلمات اور تنقید کی افراتفری سے عبارت تھے۔ یہاں تک کہ دیہی علاقوں میں بھی کسان مشقّت کرتے ہُوئے نغمے گاتے تھے۔ وہ اب نہیں گُنگناتے۔ جو چیز تبدیل ہُوئی ہے، وہ شور کی سطح نہیں، جِس کے بارے میں گُزشتہ صدیاں بھی شکایت کرتی تھیں بلکہ انتشارِ توجّہ کی سطح تبدیل ہُوئی ہے جو اُس خلا کو پُر کرتی ہے جہاں خاموشی ہونی چاہئیے۔ یہاں ایک اور ظاہری تضاد دکھتا ہے کیونکہ جہاں خاموشی واقعی دخل انداز ہوتی ہے، خواہ وہ صنوبر کے جنگلات، اُجاڑ صحرا، یا ایک اچانک خالی ہوجانے والا کمرہ ہو، وہاں یہ تقدّمی ہونے سے زیادہ اعصاب شکن لگتی ہے۔ خوف سرایت کرتا ہے؛ کان بے اختیار کسی بھی آواز پر لپکنے لگتے ہیں، خواہ وہ آگ کی سنسناہٹ کی آواز ہو یا پرندوں کی پُکار یا پتّوں کی سرسراہٹ، وہ اِس کو اِس نامعلوم خالی پن سے بچا لے گا۔ لوگ خاموشی چاہتے ہیں مگر اتنی بھی نہیں۔ | Entry #22957 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
لوگ خاموشی کی تمنا کرتے ہیں، مگر پھر حواس باختہ ہو جاتے ہیں دور حاضر کا نفسِ موضوع، کم از کم ترقی یافتہ دنیا میں، یہ ہے کہ لوگ خموشی کی تمنا تو کرتے ہیں مگر اسے پانے سے قاصر ہیں۔ ٹریفک کا شور، فون کی لگاتار گھنٹی، بسوں اور ریل گاڑیوں میں ریکارڈ شدہ صوتی اعلانات، خالی دفاتر میں بلند آواز ٹیلیویژن، یہ سب نفسیاتی آزمائش اور خلفشار کا باعث ہیں۔ نسلِ انسانی اپنے آپ کو شور سے تلف کئیے جا رہی ہے اور اس کی تنقیض کی تمنائی ہے – خواہ وہ ویرانے میں ملے، وسیع سمندر میں یا کسی سکون اور ارتکاز کے مراقبہ میں۔ ایلن کوربن، تاریخ کا ایک پروفیسر، سوربان میں اپنی پناہ گاہ سے اور ارلن کیگ، ناروے کا ایک سائنسی محقق، قطب جنوبی کے ویرانوں کی یادوں سے رقم طراز ہیں، جہاں ان دونوں نے پناہ پانے کی کوشش کی۔ اور جیسا کہ مسٹر کوربن "تاریخِ خامشی" میں ذکر کرتا ہے کہ غالباً شور کی مقدار میں پہلے کی نسبت کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ہوائی ٹائروں سے پہلے شہر کی سڑکوں پر لوہے کے پہیوں کا اور پتھروں پر گھوڑوں کے ٹاپ کا کان بہرے کر دینے والا شور ہوتا تھا۔ موبل فون کی اختیاری بندش سے قبل بسوں اور ریل گاڑیوں میں گفتگو کا بے حد شور ہوتا تھا۔ اخبار فروش اپنے آلات کار کسی خاموشی کے ڈھیر میں نہیں رکھ چھوڑتے تھے، بلکہ بلند آواز سے ان کی تشہیر کرتے، جیسا کہ چیری، بنفشہ اور تازہ اسقمری بیچنے والے۔ تھیٹر اور آپرا شور و غوغا، ہلڑ بازی اور افرا تفری کا منظر ہوتے۔ حتیٰ کہ دیہات میں بھی کسان اپنا کام کرتے ہوۓ گاتے چلے جاتے۔ اب انہوں نے گانا چھوڑ دیا ہے۔ شور کی مقدار جس کی گزشتہ صدیوں میں بھی شکائت تھی میں کچھ فرق نہیں پڑا، جو چیز بدلی ہے وہ ہے بھٹکاوا، جو اس جگہ پر قبضہ کئیے ہوۓ ہے جہاں خاموشی چھا سکتی تھی۔ یہاں ایک اور مخمصہ پایا جاتا ہے، کیونکہ جب یہ طاری ہوتی ہے – خواہ یہ کوئی صنوبر کے درختوں کا جنگل ہو، چٹیل صحرا ہو، یا فوری طور پر خالی کیا گیا کمرہ – تو اکثر یہ پسندیدگی کی نسبت حواس باختگی کا باعث ہوتی ہے۔ خوف طاری ہو جاتا ہے؛ کان فطری طور پر کسی بھی آواز پر متوجہ ہوتا ہے، خواہ وہ لکڑی کے سلگنے کی آواز ہو یا پرندوں کی چہچہاہٹ یا پتوں کی سرسراہٹ، جو اسے اس نا معلوم خالی پن سے پناہ دے دے۔ | Entry #22963 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|
خاموش صدائں اس مقالے کا مطلب یہ هے کہ اخر کار ترقی یافته دنیا کے لوگوں نے خا مو شی کے علاوہ کوءئ اور چیز دریافت نہیں کی. بهت زیادہ بہیڑ پیوست ٹلیفون کی اوا زیں ڈیجیٹل میڈیا بسوں اور ریل گاڈی کی صدائں ٹی وی کی اوازئں دفاتر میں اوازئں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے.اوازوں کی تناسب سے وحشی جانوروں اوقیانوسوں عقب نشینی ارامش اور تمرکز کے لحاظ سے مقابلہ کی صورت میں انسا نوں کے لئے بہت دشوار ہے.مشہور تاریخ دان پروفیسر الین کاربن اپنے مہاجرت کی داستان بیان کرتے ہوئے اور ارلن کیج نارویژن جستجو گر دونوں نے انٹارکٹکا کے ضائعات کے بارے میں لا حاصل یادداشت لکہے ہیں. اب چونکہ محترم کاربن نے خاموشی کی تاریخ پر حرف زنی کرتے ہوئے خاموشی کی موجودگی میں اواز کی مخالفت کی ہے .پہیے سے قبل جرنگ کی اواز دو چرخہ اور گہوڑوں کے نعل کی اوازیں اور شہر کے گلی کوچے اوازوں کی قوت سے فا قد تہے.تجزیہ کے بعد معلوم ہوا کہ ما ضی میں لوگ ٹلیفون کی مدد سے بسوں میں اور ریل گاڈی میں ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے تہے. بسا اوقات اخبار فروش اپنے پیغام رسانی کے کام میں مصروف رہتے ہیں اور سکوت اختیار نہیں کرتے .کاروباری جگہیں راوشناس تماشا خانہ اور سراے اواز کی وجہ سے پر از رونق ہوتے ہیں.ملک کے قرب و جوار میں زحمت کش سکوت کے حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں. نسبتا گزشتہ صدیوں کے مقابلہ میں اوازوں میں زیادہ فرق نہیں ایا البتہ تہو ڑی تغیر کی ہے. اسی طرح دستکاری کی مرکز میں زیادہ شور کی وجہ سے خاموشی معدوم ہوجاتی ہے .بسا اوقات گہنے نحیف جنگلوں میں بے مدرک بیابا نوں میں کمروں کے تخلیہ میں نا گهانی کی صورت میں شور پر استدلال کرتی ہے . مرحلہ بہ مرحلہ وحشت. وہ جگہیں جہاں پرندے یا پتے هس هس کی شور کرتے هیں تو اسی حالت میں وہ لوگ جو خاموشی کے خواهش مند هیں زیادہ تر ان کی شور سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور مجبوری کی صورت میں ہر چیز کی اواز کو بہ طور غیر ارادی سنتے هیں. | Entry #23698 — Discuss 0 — Variant: Not specified
|